Tuesday, July 29, 2014

Reviews on Nala-e-shabgir


نالہ ¿ شب گیر خطوط کے آئینہ میں
—صدف مرزا( کوپین ہیگین ڈنمارک)
”.... ایک نئی سوچ نے ایک نئی سمت قدم اٹھایا۔زمانے کے انداز بدلے گئے....در اصل عورت کی قرنہا قرن پرانی مظلومیت کی لا متناہی داستان....دوسری طرف مغربی فیمنزم .. جو افراط میں اس حد تک تیز رفتار ہوا کہ قدم حدود کا پاس نہ کر سکے....مظلوم نے ظالم کا چہرہ پہن لیا اور بے محابا بلا تفریق مرد کے ہر روپ پر لال کراس ڈال دیا....اس ماحول میں ایک نئے موضوع کے تار و پو.... حسیت.... موضوع تا متن.... چیلنج.... اور لا ینحل سوالات....فاصلوں کو سمیٹتی... بلکہ انسان سے اس کی شناخت چھینتی.. گھروں کو چوراہا بناتی زندگی .... مرد کی طرح عورت کے ہاتھ میں بھی ہر رشتہ کلک کا کھیل ہی ٹھہرا.... نفسیاتی الجھنوں کو بیان کرتا.... معاشرے کی گھٹن اور عورت صرف ایک بدن.... لیکن الجھنیں مزید الجھ گئیں اور گرہیں باریک ریشم کے تاروں میں جا اٹکیں.... اپنے انداز سے مختلف النوع خیالات کو مہمیز کرتی داستان....“
—نایاب(پاکستان)
غیر معمولی اور زبردست فکر۔ عورت کے موضوع پر ایسا ناول اردو میں بھی آئے گا، یہ سوچ سے پرے ہے— آج کی بدلتی ہوئی دنیا میں ہر لحظہ ایک نئی کہانی کا جنم ہورہا ہے۔ لفظ نئے شکلوں میں سامنے آرہے ہیں۔ کچھ کہانیاں فالج زدہ ہیں۔ دنیا بھر میں پولیو مہم تو ہوئے مگر زندگیوں کو فالج زدہ کرگئے۔ نو مولود کہانیوں کی آنکھ بھی نہیں کھلتی کہ ان کی تشہیر کردی جاتی ہے۔ ننگا کرکے دنیا کو دکھایا جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک بچی جو ابھی پیدا ہوئی ہے۔ اسے دیکھنے سے برانگیختہ کردینے والے جذبات کیوں کر پیدا ہوسکتے ہیں۔؟ مگر ذوقی کی کہانی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ نالہ ¿ شب گیر جسموں کی کہانی بھی ہے— غالب آتے ہوئے جسموں کی کہانی ،جنہیں دیکھ کر جسم میں آگ تو بھر جاتی ہے مگر چھونے سے ڈر لگتا ہے۔ ذوقی نے جو لکھا اس کا تخم ہزاروں سال پہلے دنیا کے پیٹ میں رکھا گیا یہ کہانی اسی پیٹ میں جوان ہوئی۔ ذوقی نے تو بس اسے لفظوں کے اوزار سے باہر نکالا ہے۔ اور دنیا کو درد زہ سے نجات دلائی ہے۔ یہ کہانی نہ صرف آج کی بلکہ آنے والی صدیوں کی بازگشت بھی ہے۔ یہ پیشین گوئی ہے اس بات کی کہ دیوتاﺅں کا زوال ہوا چاہتا ہے۔ دنیا میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد مردوں کے لیے شکست کا باعث بن رہے ہیں۔ کون ہے جو ناہید ناز نہیں ہے۔ ہر ایک عورت میں ایک ناہید ناز چھپی ہوئی ہے۔ مگر مردوں کا بناوٹی خوف ان پر حاوی ہے۔ ذوقی نے اسی خوف کو تار تار کردیا ہے۔ اور سچی اور کھری عورت کا حسن دکھایا ہے۔ پہلے عورت کا استحصال ہوتاتھا مگر اب مرد کی باری ہے۔ سوچ کے جنس بدل رہے ہیں۔ نئی کہانیاں جنم لے رہی ہیں۔ ذوقی نے جس طرح انسانی نفسیات کی تصویر کشی کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ مرد ہوکر مرد کے خلاف ہتھیار اٹھانا دل گردے کی بات ہے جو ذوقی نے کردکھایا ہے۔ انہوں نے فضا میں موجود دھند ہٹا دی ہے۔ اب گھٹن نہیں ہے۔ پرانی فرسودہ روایت اور گلوبل ورلڈ کو جس طرح مدغم کیا ہے وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ حقیقت کے پانیوں سے لکھی گئی اس کہانی کا میں تہہ دل سے خیر مقدم کرتی ہوں۔ جب آپ اس کہانی کو ختم کریں گے تو میرے ایک سوال کا جواب دینا ہوگا—”کیا ابھی کچھ باقی رہ گیا ہے۔ ؟ “
اسے ہر عورت اور ہر مرد کو پڑھنا چاہئے۔

—یونس خان (پاکستان )
”نالہ ¿ شب گیر“ ایک ایسا ناول ہے جو قاری کو تحیر کی دنیا میں لے جاتاہے۔اس ناول کو سنبھالنا ایک مشکل کام تھا لیکن مشرف عالم ذوقی نے اسے خوب صورتی سے نبھایا ہے۔ یہ ناول دو عورتوں کی سچی روداد لگتا ہے کہ جسے ذوقی نے بہترین کرافٹس مین شپ سے ایک خوب صورت لڑی میں پرو دیا ہے۔ لگتا ہے کہ کچھ عورتوں نے اپنی زندگی کے تجربات ذوقی سے یقینا شیئر کئے ہیں— یہ محض ایک تصوراتی کہانی نہیں ہے۔ اس کے کچھ حقیقی کردار بھی یقینا رہے ہوں گے۔ ذوقی نے اسے ”نالہ ¿ شب گیر“میں خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔اس ناول میں دو خواتین کے کرداروں کے ذریعے بہت بڑی نفیساتی الجھنوں کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عورت کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے ان کرداروں کویقینا ذوقی نے پیدا کیا ہے— ان میں ایک کردار ہے ناہید ناز کا اور دوسرا صوفیہ کا۔ بظاہر اس ناول کی وجہ جیوتی گینگ ریپ ہے لیکن اس کے پیچھے سالوں کا تجسس اورذوقی کی جاننے کے لگن ھے جس کا نتیجہ ”نالہ ¿ شب گیر“ہے۔ جیوتی واقعہ اسے اگنیش کرنے کا باعث ضرور ہو سکتاہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ بہت سارے معاملات کو اپس میں جوڑنا اور جدید دور میں نئی علامتیں دھونڈنا یقینا یک مشکل کام ہے۔ پتہ نہیں مشرف عالم ذوقی اسے کیسے کر پاتے ہیں ؟یقینا برسوں کی سوچ ھے جس کوذوقی نے دو مضبوط کرداروں میں سمویا ھے۔ ”نالہ ¿شب گیر“ کے ذریعہ ذوقی نے عورتوں کے نفسیاتی مسائل پر بہت ساری پڑی گرہیں کھولنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک بالغ ناول ہے۔ذوقی نے یقینا ”نالہ ¿ شب گیر“کو محنت سے لکھا ہے— یہ محض spur of the moment نہیں ہے۔

—ڈاکٹر انوار الحق(دہلی)
نالہ ¿ شب گیرحوا سے کالی،امبا، پاروتی، سرسوتی، لکشمی سے لے کر ہلیری کلنٹن، کلپنا چاولہ، ایشوریہ رائے اور ملالہ یوسف زئی تک عورتوں کے مختلف روپ کی حیرت انگیز داستان ہے۔ عورت بدل رہی ہے تو مرد بھی بدل رہا ہے۔ تبدیلی دنیا کی فطرت ہے۔ ناول بھی بدل رہا ہے۔ دستوفسکی سے لے کر ایلس منرو اور اروندھتی رائے تک ناول کے کردار بدلتے رہے۔ انسانی وجود کے تخیل کی داستان سے لے کر حقیقت نگاری، گوتھک ریلزم، جادوئی حقیقت نگاری اور موہوم حقیقت نگاری یعنی وجود سے عدم وجود تک ناول میں ہزاروں تکنیکی تجربے ہوئے مگر ایک بات اپنی جگہ مسلم رہی اور وہ یہ کہ انسان کو سمجھنا آسان نہیں—نہ عورت کو سمجھنا آسان ہے اور نا ہی مرد کو۔ انسان ایک پیچیدہ مخلوق ہے۔ یہ پیچیدگی وقت اور نسل کے ارتقا کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ لہذا آج کے فن کارکے سامنے چیلنج نسبتاًبڑا ہے۔ اور آج کے فنکار سے توقعات بھی زیادہ ہیں۔
ناول نالہ ¿ شب گیر کی کردار نگاری پچھلے زمانے کے ناول نگاروں سے زیادہ کامیاب اس لیے ہے کہ اس ناول میں عورت ڈری سہمی ہوئی نہیں ہے بلکہ مرد ڈرا سہما ہوا ہے۔ ناول چونکہ سماج کا آئینہ ہوتا ہے اس لیے آج کے سماج کی صحیح عکاسی اس ناول میں موجود ہے۔ جب عورتیں ڈری اور سہمی ہوئی ہوتی تھیں توان کے کردار کو ناول میں پیش کرنا کتنا آسان ہوتا تھا۔ مردوں کا رعب بھی ناولوں میں بڑی آسانی سے پیش کر دیا جاتا تھا۔ اب معاملہ اتنا سیدھا سادہ نہیں رہا۔ حالات پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ انسان ٹکنالوجیکل ہو گیا ہے۔ آج کے ناول نگار کا بھی میکانیکل ہونا لازمی ہے۔
اردو ناول اکیسویں صدی میں اب اپنی ترقی کے اگلے پڑاﺅ پر قدم رکھ چکا ہے۔ اس سلسلے کی کڑی میں بہت سے اچھے ناول آ رہے ہیں اور آئندہ بھی شائع ہونگے، مگر اولیت کا سہرا مشرف عالم ذوقی کے ہی سر بندھے گا۔
نالہ ¿ شب گیر میں منٹو کی طرح چونکا دینے والے مقامات بھی ہیں تو بیدی کی طرح چول کہیں ہلتا نہیں۔ عینی کی طرح تہذیب کی کروٹیں بھی ہیں تو پریم چند کی طرح احساسات کا طوفان بھی۔ آج کے فکشن کے تقاضے کو پورا کرنا آسان نہیں ہے۔ ذوقی نے ان تمام انسانی پیچیدگیوں کے آگے سپر نہیں ڈالا اور نا ہی آسانی کے ساتھ باہر نکل گئے بلکہ انہوں نے ان پیچیدگیوں سے کھیلا ہے۔ مزے لے لے کر’پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا‘ ناول کے اسلوب کے ساتھ ذوقی کا یہی معاملہ ناول کو بڑا بنا دیتا ہے۔ ذوقی کے ناول نالہ شب گیر میں اکیسویں صدی کی عورت کی مکمل تصویر جس طرح پیش کی گئی ہے اس کی مثال عالمی ادب میں بمشکل نظر آتی ہے۔ ایلس منرو کی کہانیوں میں بھی نہیں۔ قرة العین حیدر کے نسوانی کرداروں میں بھی نہیں بلکہ اگر یہ بھی کہا جائے کے بیدی کے لاجونتی میں بھی نہیں اورکرشن چندر کے مہا لکشمی کے پل میں بھی نہیں تو غلط نہ ہوگا۔

— نعمان شوق(دہلی)
ذوقی کا ناول پڑھا— میں اعتراف کرتا ہوں کہ دنیا کے اچھے فکشن کا بہت کم حصہ میں نے پڑھا ہے— ظاہر ہے سب کو پڑھنے کے لیے ایک عمر تو یقینا ناکافی ہوگی۔ میرا ماننا ہے ایک عورت کے لیے آج بھی اردو فکشن نا محرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ منٹو اور عصمت جیسی چند ایک مثالوں کو نظر انداز کردیں تو ہر جگہ عورت لائی گئی ہے— لیکن اس ناول نالہ شب گیر میں عورت خود چل کر داخل ہوئی ہے۔ذوقی کے اعصاب پر عورت سوار ہو نہ ہو، لیکن اس ناول کی روح میں آج کی عورت پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہی ہے۔

—اصغر شمیم(کلکتہ)
اکیسوی صدی کا اوائل اردو ناول کے لئے نیک فال ثابت ہوا ہے ۔آتش رفتہ کا سراغ اور لے سانس بھی آہستہ اس دور کے دو اہم ناول قراردئے جا سکتے ہیں ۔ مشرّف عالم ذوقی کے ناولوں کو پڑھنے کے بعد یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردوناول کا مستقبل اب زیادہ خوش آئنداور تابناک ہے ۔میرے خیال سے زیر مطالعہ ناول نالہ شب گیر بھی اس صدی کا ایک اہم ناول ثابت ہوگا۔اس ناول میں انہوں نے ایک نئی عورت کا تصور پیش کیا ہے جو مردوں سے کم تر نہیں ہے جس نے انتہائی ہوشیاری سے مردوں کو ایک نیا مرد بنا دیا ہے یعنی ....عورت ....مشرف عالم ذوقی نے اس ناول کے ذریعے ایک نئی سوچ کے ساتھ فکرو احساس کے نئے دریچے وا کئے ہیں.... اس ناول کوپڑھا جانا چاہئے اور خوب پڑھا جانا چاہیے۔

—محمد نظام الدین(دہلی)
مشرف عالم ذوقی کا نیا ناول ”نالہ ¿ شب گیر“ ایک طرف جہاں اپنے موضوع کے اعتبار سے بالکل منفرد اور انوکھا ہے تو وہیں اپنے اسلوب کے اعتبار سے اچھوتا ہے۔ ذوقی کی شناخت صرف عہد شناس فنکارہی کی نہیں بلکہ زمانہ میں رونما ہونے والے واقعات اور حادثات کے نباض بھی ہیں۔ آج پوری دنیا میں عورت کے مقابلے کا بازار گرم ہے اور ہر عورت اپنی برتری حاصل کرنے کے لیے آرائش و زیبائش میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہی ہے۔ اکیسویں صدی میں جہاں عورتوں کی مقابلہ آرائی میں اضافہ ہوا ہے تو وہیں قلمکاروں اور فنکاروں کے اذہان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسے موضوعات کی طرف آج کا فنکار توجہ مبذول کرنے سے قاصر ہے لیکن کچھ ایسے بے باک اور بے لاگ فنکار اور تخلیق کار موجود ہیں جو ایسے موضوعات کو اپنے فن کا محور بناتے ہیں اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے دن رات برابر کرتے ہیں۔ ان میں ایک اہم نام مشرف عالم ذوقی کا ہے۔ مشرف عالم ذوقی ایک ایسے فنکار ہیں جو ہر بار ایک نیا موضوع اپنے ناول میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ”نالہ ¿ شب گیر“ اکیسویں صدی کا 
اورقیمتی آراءسے نواز رہے ہیں۔ کسی ناول کی کامیابی کی دلیل یہی ہے کہ اس ناول پر بالاستیعاب مکالمہ اور مذکراہ ہو اور ”نالہ ¿ شب گیر“ بھی ایک ایسا ہی ناول ہے جس پر مذاکرہ اور مکالمہ کا سلسلہ شرو ع ہوگیا ہے۔ میری رائے اس ناول کے بارے میں یہ ہے کہ یہ ناول جہاں اپنے موضوع کے اعتبار سے مقبولیت کے منازل طے کرے 
گا وہیں اپنے اسلوب کے لحاظ سے بھی انفرادیت کا حامل ہوگا۔

Title Cover